قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے فرمایا: ان الانسان لربہٖ لکنود۔ (العادیات: ۶) (انسان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔ )
"کنود” کا مطلب یہ ہے کہ بندہ مصیبات وبلیات کو یاد رکھے اور رب کی نعمتیں فراموش کردے۔
ایک بزرگ آشفتہ سر اور خراب حال تھے،بدن برص کا شکار تھا، آنکھوں کی بصارت جاچکی تھی، ہاتھ اور پائوں بھی شل ہوچکے تھے، اس کے باوجود کہہ رہے تھے: الحمد للّٰہ الذی عافانی مما ابتلی بہٖ کثیرا ممن خلق وفضلنی تفضیلا۔(حمد وثنا اللہ رب العزت کے لیے ہے، جس نے مجھے ان آزمائشوں سے عافیت بخشی جن میں اپنی کثیر مخلوق کو مبتلا کیا اور مجھے بڑی فضیلتوں سے نوازا۔)
ایک شخص نے دریافت کیا: اللہ نے تمھیں کس چیز سے عافیت بخشی؟ بینائی سے محرومی ہے، برص نے بدن کا احاطہ کرلیا ہے، سر پر بال نہیں ہیں، ہاتھ پائوں بھی شل ہوچکے ہیں۔ تمھیں کیسی عافیت حاصل ہے؟ بزرگ نے فرمایا: تم پر افسوس ہو! اللہ رب العزت نے مجھے زبان عطا فرمائی جو ہمہ وقت اس کے ذکر میں مشغول رہتی ہے، قلب عطا فرمایا جو اس کی نعمتوں پر احساسِ شکر سے لبریز رہتا ہے، مصائب وآلام سے گھِرا بدن عطا فرمایا جس پر صبر کرتا رہتا ہوں۔ یہی تو عافیت ہے
"کنود" کا مطلب
بانٹیں