فاضل جلیل حضرت مفتی ارشاد احمد ساحل سہسرامی صاحب کے انتقال کی خبر سن کر رنجیدہ ہوں-
إنا لله وإنا إليه راجعون
شاید یہ 2010 کی بات ہے، جب پہلے پہل موصوف سے شناسائی ہوئی، اسی زمانے میں موصوف حضرت مولانا سید جمال احمد صاحب سے تحریک پاکر سادات جھونسی کے نسب نامے کے حوالے سے کتاب مستطاب منبع الأنساب مؤلفہ مخدومنا سید معین الحق جھونسوی پر ترجمے کا کام کر رہے تھے- ان کے ترجمے کے سبب مذکورہ کتاب سے اردو دنیا واقف ہوئی، گو کہ اس میں بہت سی باتیں قابل غور تھیں، لیکن یہ ہی کیا کم ہے کہ انھوں نے صدیوں پرانے ایک مخطوطے کو اکیسویں صدی کے باذوق قارئین کی میز پر پہنچا دیا- فجزاھما الله خير الجزاء
مولانا زود نویس تھے، فقہ و افتا، طریقت و تصوف، زبان و ادب اور تاریخ و سوانح کے مختلف پہلوؤں پر داد تحقیق دی اور خوب سراہے گئے-
ان کے اچانک اس طرح سے دنیا سے چلے جانے سے علمی حلقے سوگوار ہو گئے ہیں- میں ایسے تمام سوگواروں کی خدمت میں تعزیت پیش کرتا ہوں-
مالک کریم ان کی بیش بہا خدمات کو قبول فرمائے، اور انھیں اپنے فضل وکرم سے مقام رفیع سے نوازے، آمین
شریک غم
فقیر ابو حسام سید قمر الاسلام کان الله له