مفتی اعظم ہند علامہ مصطفیٰ رضا خان علیہ الرحمہ” فتاویٰ مصطفویہ ” میں فرماتے ہیں:
"قوالی مع مزامیر ہمارے نزدیک ضرور حرام ناجائز و گناہ ہے اور سجدہ تعظیمی بھی ایسا ہی.ان دونوں مسئلوں میں بعض صاحبوں نے اختلاف کیا ہے اگرچہ وہ لائق التفات نہیں، مگر اس(اختلاف) نے ان مبتلاؤں کو حکم فسق سے بچادیا ہے۔”(فتاویٰ مصطوفیہ،کتاب الحظر و الاباحۃ، ص ٤٥٦،سن اشاعت ٢٠٠ء،مطبع:اشتیاق اے مشتاق پرنٹرز لاہور پاکستان،)
اسی طرح” فتاویٰ شارح بخاری” میں حضرت علامہ شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
"جو سنی علماء اور مشائخ مزامیر کے ساتھ قوالیاں سنتے ہیں ان کو فاسق کہنا درست نہیں” (فتاویٰ شارح بخاری جلد ٢-٢٧٨)
اسی طرح شارح بخاری علیہ الرحمہ ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
جب کسی مسئلے میں خود علمائے اہل سنت میں اختلاف ہو تو یہ درست نہیں کہ ایک دوسرے کو فاسق کہیں۔(فتاوی شارح بخاری ج 2 ص 278)
اسی طرح شارح بخاری علیہ الرحمہ اپنی تصنیف”اسلام اور چاند کا سفر” میں لکھتے ہیں:
اعلیٰ حضرت قدس سرہ کا فتوی ہے کہ مزامیر کے ساتھ قوالی مطلقاً ناجائز ہے مگر ہمارے اکابر اہل سنت کا ایک طبقہ اسے جائز جانتا ہے۔نہ صرف جائز جانتا ہے بلکہ سلوک ممد و معاون جان کر اسے سنتا بھی ہے اور اور سناتا بھی ہے۔مگر یہ سب اختلافات کبھی بھی آپس میں سب و شتم….کا باعث نہ ہوئے۔(اسلام اور چاند کا سفر،ص ٢٠ تا ٢١،مصنف:خلیفہ صدر الشریعہ فقیہ اعظم ہند شارح بخاری حضرت علامہ مفتی شریف الحق امجدی،ناشر:مکتبہ بہار شریعت در بار مارکیٹ لاہور)
اسی طرح”حضرت علامہ مولانا مفتی حبیب اللہ خان نعیمی اشرفی بھاگلپوری علیہ الرحمہ سابق شیخ الحدیث جامعہ نعیمہ مراد آباد یوپی” سے جب سوال ہوا کہ:ایک امام صاحب نے ایسے پیر سے بیعت حاصل کی کہ وہ پیر پابند نماز نہیں اور جمعہ بھی کبھی پڑھ لیتے ہیں اور ان مجالس کے جن مجالس میں ڈھولک باجہ بجایا جاتا ہے، منتظم ومہتمم بنتے ہیں اور عوام سے چندہ لے کر ڈھولک، باجے سے قوالی کہنے والے کو روپیہ دیتے ہیں، وہ امام صاحب بھی ان پیر صاحب کی اتباع کرتے ہیں،(یعنی امام صاحب بھی ڈھولک باجے سے قوالی کہنے والے کو روپیہ دیتے ہیں) آپ سے عرض ہے کہ ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں ۔ بینواتوجروا۔مسئولہ قاضی محمدسلیمان، سبالی کہدر، پوسٹ ڈلاری، ضلع مرادآباد، ۲۳؍ستمبر۱۹۵ءتو جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
الجواب:قوالی(مع مزامیر)کا مسئلہ متقدمین ومتاخرین میں مختلف فیہ رہا ہے۔قوالی(مع مزامیر)سننے والے پر حکم فسق جاری کرنے سے میں احتراز و اجتناب لازم سمجھتا ہوں۔رہا امام صاحب کے پیرکا نمازوں کو چھوڑنا یہ سخت گناہ اور فسق ہے۔ ایسے پیر سے بیعت جائز نہیں ۔ امام پر لازم ہے کہ وہ کسی دوسرے صحیح العقیدہ سنی متبع شریعت کے ہاتھ پر دوبارہ بیعت کرے ورنہ اس امام کے پیچھے فاسق پیر کی تعظیم وتکریم کے باعث نماز مکروہ ہوگی۔واللہ تعالیٰ اعلم۔(حبیب الفتاوی جلد اول صفحہ ٢٨٤،ناشر آن لائن ایپ بنام:مجموعہ فتاویٰ اہل سنت)اسی طرح محقق مسائل جدیدہ حضرت علامہ مولانا مفتی نظام الدین رضوی صدر شعبہ افتاء الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور لکھتے ہیں:کان پور کے ایک صاحب نے آپ(حضرت مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ)سے سوال کیا کہ مزامیر حرام ہیں اور حرام کا مرتکب پکا فاسق و فاجر ہے۔حرمت کے ثبوت میں انہوں نے بخاری شریف کی ایک حدیث، ہدایہ، فوائد الفؤاد، اور مکتوبات شیخ منیری رحمۃ اللہ علیہ کی عبارات پیش کی ہیں۔اس کے بعد(سائل) لکھتے ہیں:اب غور کیجئے کہ مزامیر مطلقاً حرام ہیں اور یہ(جواز کے قائلین)کہتے ہیں کہ ہمارے لیے حلال ہیں۔اس کے باوجود ان کی خلافت و اجازت باقی رہنا کیا معنی؟(سائل کے)جواب میں حضرت نائب مفتی اعظم ہند(علامہ شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ) نے پہلے عدل کے تقاضے کو ملحوظ رکھنے کی تلقین کی۔پھر انہیں اس بات کی طرف متوجہ کیا کہ:کچھوچھہ شریف کے علماء مزامیر کے ساتھ قوالی سنتے تھے جیسے شیخ المشائخ حضرت مولانا شاہ(سید) علی حسین صاحب اشرفی میاں رحمۃ اللہ علیہ، ان کے فرزند ارجمند محبوب المشائخ حضرت مولانا(سید) احمد اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ۔اور یہ بات (کہ حضرات مزامیر کے ساتھ قوالی سنتے ہیں)حضرت مجدد اعظم(اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ)کے علم میں تھی۔اس کے باوجود ان دونوں بزرگوں کی اعلیٰ حضرت تعظیم و تکریم فرماتے تھے۔(جب کہ)اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی عادت کریمہ تھی کہ وہ کسی فاسق کی تعظیم نہیں کرتے تھے۔امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے کبھی غفلت نہیں برتتے تھے۔(پھر حضرت مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ نے سائل کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:)آپ اس رخ پر ٹھنڈے دل سے غور کریں! اس کے بعد آپ نے سائل کی خطا اور اس مسئلے کی حقیقت پر یوں روشنی ڈالی:فرمایا:بات یہ ہے کہ جب کسی مسئلے میں خود علمائے اہل سنت میں اختلاف ہو تو یہ درست نہیں کہ ایک دوسرے کو فاسق کہیں۔یہاں یہی معاملہ ہے۔حضرات کچھوچھہ مقدسہ ہمارے معتمد علماے اہل سنت ہیں وہ مزامیر کے ساتھ قوالی کو جائز کہتے ہیں۔(الخ)(بحوالہ:فتاویٰ شارح بخاری جلد ١،ص ٦١،بعنوان حضرت شارح بخاری اور آپ کے فتاویٰ کا ایک تعارف، از قلم مفتی نظام الدین رضوی صدر شعبہ افتاء الجامعۃ الاشرفیہ)مذکورہ بالا عبارات سے بالکل واضح ہے کہ:سماع مع مزامیر کے قائلین و عاملین پر حکم فسق نہیں۔آخر میں سماع مع مزامیر پر قول فیصل کے طور پر مجدد وقت، غوث العالم،محبوب یزدانی،سردار چشتیت،حضرت قدوۃ الکبرا”سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ”کا فرمان نقل ہے ملاحظہ فرمائیں!لکھتے ہیں:استماع مزامیر مذاہب مختلفہ میں جاری رہا ہے لیکن بعض نے اس کو جائز نہیں کہا ہے۔نیز مخدوم پاک علیہ الرحمہ فرماتے تھے کہ:سماع(قوالی)کے منکرین کے مقابلہ میں ہمارا آخری جواب یہ ہے کہ یہ(قوالی سننا)ہمارے پیروں اور مرشدوں کا طریقہ رہا ہے ہم سنیں گے اگر تم کو اس سے انکار ہے تو تم انکار کرو(کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ فروعی مسائل میں سے ہے)(لطائف اشرفی مترجم جلد اول صفحہ نمبر ٧٧٠،لطیفہ نمبر ٢٠،بعنوان استماع مزامیر،)مذکورہ بالا عبارت سے بالکل واضح ہے کہ”قوالی مع مزامیر” آج کا اختلافی مسئلہ نہیں بلکہ زمانہ قدیم سے یہ اختلافی مسئلہ ہے نیز مشائخین کرام اولیائے کرام خصوصاً چشتیہ مشائخین قوالی بلا مزامیر و مع مزامیر ہر دو طرح سنتے رہے ہیں۔
طالب دعا:- شبیر احمد راج محلیجنرل سکریٹری:- تنظیم علمائے اہل سنت راج محل(رجسٹرڈ) و استاذ دارالعلوم گلشن کلیمی راج محل۔٧/محرم الحرام ١٤٤٦ھ بروز اتوار۔