کہنے کی بات کہنے اور نہ کہنے کی بات نہ کہنے کے تعلق سے حضرت مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری رحمہ اللہ اپنے ایک خط میں فرماتے ہیں:
"اے بھائی!حضور رسالت پناہ ﷺ کی وصیت امت کے علماء کو یہ ہے” کلمو الناس مما یعرفون ودھوا مما ینکرون ان یّکذبوبَ اللہ ورسولہٗ” یعنی لوگوں سے ایسی باتیں کرو جسے وہ جانیں سمجھیں۔ ان باتوں کو چھوڑ دو جس کا وہ انکار کریں۔ کیا تم چاہتے ہو کہ وہ اللہ ورسول کی تکذیب کریں۔
اس وصیت کی تنبیہ و ہیبت اہل علم و ارباب معرفت کی جانوں پر وہ(کام) کرتی ہے جو کل قیامت کے دن دشمنوں کفاروں کی جان پر گزرے گی۔
علماء کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ جو کچھ جانتے ہیں وہ سب عوام میں کہہ دیں۔ بہت ساری چیزیں ایسی ہیں کہ جس کا بیان عوام میں ہر گز لاںٔق اور مناسب نہیں۔ ” کلمو الناس علیٰ قدر عقولھم”باتیں لوگوں کی سمجھ کے مطابق کرو۔ علماء امت جو کچھ جانتے ہیں ان تمام امور و اسرارِ حقائق و دقاںٔق کو اگر بیان کردیں تو اصلاح سے زیادہ خرابی پیدا ہو جائے، اور نفع سے زیادہ نقصان پہنچے۔ اگر سب کچھ بیان کر دینا جاںٔز ہوتا تو مشائخ رضوان اللہ علیھم اپنی گفتگو اور بیان میں رمز و اشارات کو اختیار نہ کرتے۔ اور اپنی عبارتوں میں مخصوص اصطلاحات نہ استعمال کرتے۔ یہ سب ان لوگوں نے اس لیئے کیا کہ جو کہنے کی چیز ہے وہ کہی جا سکے اور جو نہ کہنے کی باتیں ہیں وہ اسرار پردہ کے اندر چھپی رہیں۔ ان سب لوگوں کو یہ معلوم ہو چکا ہے کہ سب کچھ کہہ دینا لاںٔق اور مناسب ہوتا تو قرآن کریم میں حروف مقطعات نہ ہو تے۔ چنانچہ کچھ متکلمین حروف مقطعات کے بارے میں کہتے ہیں کہ "سرُّ بَینَ اللہ َوَحبیبہِ” یہ راز ہے الله اور اس کے حبیب کے درمیان۔ اور قوت القلوب میں ابو طالب مکی رحمتہ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے "العلوم ثلا ثتہُٗ:علم ظاہر وَ علم باطن وَ علم ُ بین اللہ و عبدہٖ”(علوم تین ہیں، علم ظاہر، علم باطن اور تیسرا وہ علم جو اللہ اور اس کے بندہ کے درمیان ہے۔) تو وہ علم جو ظاہر ہے اسے اہل ظاہر سے کہنا چاہیے اور جو علم باطن ہے وہ اہل باطن میں بیان کرنا چاہیے اور وہ علم جو خدا اور اس کے بندہ کے درمیان خاص ہے وہ نہ اہل ظاہر کے سامنے اور نہ اہل باطن کے آگے کہنا چاہیے۔ اگر اس خاص علم کو کسی نے بیان کردیا تو اس نے الله رب العزت کے اسرار کو کھول دیا اور سرّ ربوبیت کے اس افشا کرنے سے کفر کا فتویٰ لگ گیا ” من صرح با لتوحید فقتلہ اولیٰ من احیاء غیر ہ ” یعنی جس نے توحید کے اسرار کھول دیے اس کا قتل کر دینا غیر وں کے زندہ رہنے سے بہتر ہے۔ "
(مکتوبات دو صدی، مکتوب ٨٠ ص٣٣٤)
الیاس عارفی