ہم ایک اہم اصولی نکتے کی جانب بارہا احباب کو متوجہ کرچکے ہیں، ایک ایسا نکتہ جو بے تحاشہ اجتماعی بیماریوں کی جڑ ہے، اسی سے اگنے والی شاخیں اور کونپلیں ہیں جن پر آئے دن تنازعات ہوتے رہتے ہیں۔۔۔۔۔
نکتہ یہ ہے کہ ہماری قوم کا سیکولر اور جمہوری طبقہ آئین کی دہائیاں تو خوب دیتا ہے، لیکن اسی حدتک جہاں تک آئیں ہم پر کچھ فرائض عائد کرتا ہے، جہاں سے آئیں ہمارے حقوق کی بات کرتا ہے، آئین کے اس حصے کے ذکر اور اس کے اظہار کو سیکولرازم کا دم بھرنے والی مسلم قیادت کی نگاہ میں شجر ممنوعہ اور غیر آئینی کام سمجھا جاتا ہے۔
کیا درست ہے اور کیا غلط؟ اس جمہوری ریاست میں یہ طے کرنے کا آخری حق آئین ہند کو ہے! اگر کوئی چیز آئین ہند کے مطابق درست ہے تو اسے کس بنیاد پر غلط قرار دیا جاسکتا ہے؟
بیرسٹر اسد الدین اویسی کی تغلیط و استرداد کرنے کے لیے ضروری ہے کہ یہ واضح کیا جائے کہ ان کا کون کون سا بیان یا کون کون سا اقدام غیر آئینی اور غیر دستوری ہے؟
اگر ان کا کوئی بھی قول و فعل آئین کے خلاف نہیں ہے تو پھر کس بنیاد پر انہیں غلط ٹھہرایا جا رہا ہے؟
در حقیقت اس کی پشت پر وہی دفاعی اور مغلوب ذہنیت جس میں آئین کی دہائی صرف اپنی قوم کو فرائض یاد کرانے کے لیے دی جاتی ہے، حقوق کی بات آئے تو ہر آئینی بات بھی شدت پسندی اور تقسیم کرنے والی لگتی ہے۔
اسد الدین اویسی کیوں کہ آئین کے دائرے میں رہ کر آئینی فرائض کے ساتھ اپنے آئینی حقوق کا مطالبہ بھی پورے زور و شور اور قوت سے کرتا ہے لہٰذا وہ بیک وقت ہندو اور مسلم دونوں مذاہب کے سیکولر افراد کی آنکھوں میں گڑنے لگتا ہے۔
سیکولر ہندو اویسی کو اس لیے ناپسند کرتے ہیں کیوں کہ انہوں نے پچھتر سال میں کبھی مسلم راہنماؤں کی جانب سے اپنے آئینی حقوق کے لیے ایسی طاقتور آواز نہیں سنی، لہٰذا وہ مسلمانوں کی جانب سے دفاعی اور مغلوب نمائندگی کے عادی ہوچکے ہیں، اب اس مغلوبیت سے اٹھ کر جو بھی بات کرتا ہے خواہ وہ کتنی ہی آئینی اور دستوری کیوں نہ ہو، انہیں غیر آئینی اور انتہاپسندانہ معلوم ہوتی ہے۔
اور سیکولر مسلم حضرات انہیں بس اس لیے ناپسند کرتے ہیں کیوں کہ انہیں سیکولر ہندو ناپسند کرتا ہے۔
سیکولرازم کا دم بھرنے والی مسلم قیادت کی ہر پالیسی اور نظریہ آئین کی بنیاد پر نہیں ہندوؤں کی پسند نا پسند کی بنیاد پر استوار ہوتا ہے۔ یہ عمل اپنے آپ میں کس قدر مضحکہ خیز ہے قارئین اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
آخر میں چلتے چلتے ایک سوال تمام قارئین کے لیے چھوڑ دیتا ہوں کہ جمہوری ریاست میں اگر ایک قومیت کو دوسری قومیت کے آئینی قول و فعل پر بھی ہضم نہیں ہوتے تو ان میں سے شدت پسند کون ہوا ؟ نیز آئین کا مخالف کس طبقے کو سمجھا جائے ؟
سید احمد
ایک تبصرہ چھوڑیں۔